Zar E Ishq Novel By Hoor Zara Complete – ZNZ
Download free web-based Urdu books, free internet perusing, complete in PDF, Zar E Ishq Novel By Hoor Zara Complete – ZNZ – Online Free Download in PDF, Zar E Ishq Novel By Hoor Zara Complete – ZNZ – Online Free Download in PDF, And All Free internet based Urdu books, books in Urdu, heartfelt Urdu books, You Can Download it on your Portable, PC and Android Cell Phone. In which you can without much of a stretch Read this Book. Zar E Ishq Novel By Hoor Zara Complete – ZNZ We are Giving the PDF document on the grounds that the vast majority of the clients like to peruse the books in PDF, We make an honest effort to make countless Urdu Society, Our site distributes Urdu books of numerous Urdu journalists.
Zar E Ishq Novel By Hoor Zara Complete – ZNZ
“خون کے بدلے خون!”
“بدلہ! بدلہ!”
بیٹھک کے اندر شور بڑھتا گیا۔ لیکن پھر ایک لرزتی مگر باوقار آواز بلند ہوئی۔ یہ حاجی کریم خان تھے، گاؤں کے سب سے بڑے سردار، سفید داڑھی والے بزرگ۔ وہ اپنی لاٹھی کے سہارے کھڑے ہوئے اور مجمع پر نگاہ ڈالی۔
“میسم بیٹا…” حاجی کریم خان نے گہری سانس لی، “خون کے بدلے خون لیا تو یہ دشمنی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ ہر سال ایک لاش گرے گی، ہر سال ایک جنازہ اٹھے گا۔ تمہارے بھائی کا دکھ ہم سب کا دکھ ہے، لیکن دشمن کو جھکانے کا ایک ہی راستہ ہے… ونی!”
بیٹھک میں ایک دم سکوت چھا گیا۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ کچھ جوان سرگوشی میں بڑبڑانے لگے:
“ونی؟ پھر سے؟”
“یہ ظلم ہے…”
مگر بزرگوں کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ قبیلے کا قانون یہی تھا۔ اگر ونی نہ ہوتی تو دشمنی نسلوں تک چلتی۔
حاجی کریم خان نے لاٹھی زمین پر ماری اور فیصلہ سنایا:
“دشمن کی بیٹی، زریمنہ، میسم شاہ کے نکاح میں دی جائے گی۔ یہی انصاف ہے، یہی صلح ہے۔ اور ہمارا اخری فیصلہ بھی “
اس وقت گاؤں کے دوسرے کونے میں ایک کچے کمرے میں سولہ سالہ زریمنہ بیٹھی تھی۔ نازک سا وجود، آنکھوں میں معصومیت اور چہرے پر اداسی۔ اسے ابھی ابھی خبر ملی تھی کہ اس کی قسمت بدلنے والی ہے۔
ماں روتے روتے بے حال ہو چکی تھی اور باپ شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھا تھا۔
“بیٹی…” ماں نے کپکپاتے لبوں سے کہا، “قبیلے کے جرگے نے فیصلہ دے دیا ہے۔ تجھے ونی کے نام پر میسم شاہ کے حوالے کرنا ہوگا۔” زری کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ زمین پر نظریں جمائے سوچ رہی تھی: “میں نے تو کبھی دشمنی دیکھی بھی نہیں… میں نے کسی کا خون نہیں بہایا… پھر مجھے کیوں سزا مل رہی ہے؟”
اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ دل میں خوف تھا مگر زبان پر ایک لفظ بھی نہ آیا۔ رات کے اندھیرے میں جب بیٹھک کے باہر مشعلیں جل رہی تھیں، زری کو سفید دوپٹے میں لپیٹ کر جرگے کے سامنے لایا گیا۔ اس کے قدم لرز رہے تھے، سانسیں بھاری تھیں۔ گاؤں کی عورتیں اور مرد سب حیران نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
حاجی کریم خان نے اعلان کیا:
“زریمنہ اب میسم شاہ کے نکاح میں ہے۔”
میسم شاہ نے آگے بڑھ کر زری کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نفرت اور غرور کی چمک تھی۔
وہ دھیمی مگر کڑوی آواز میں بولا:
“یاد رکھنا… تم میرے دشمن کی بیٹی ہو۔ نکاح ہوا ہے مگر دل کبھی تمہیں قبول نہیں کرے گا۔ میسم شاہ کے گھر میں تمھاری حیثیت ایک نوکرانی سے بھی کم ہے تم ونی میں ائی ایک عورت ہو اور ونی میں ائی عورتوں کی کوئی اوقات نہی ہوتی “
زری کے دل پر خنجر سا چل گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گرنے لگے۔ وہ جان گئی تھی کہ یہ صرف نکاح نہیں، بلکہ عمر بھر کی قید ہے۔–
صبح کا سورج نکلا تو گاؤں کے آسمان پر عجیب سا سکوت تھا۔ ہوا میں ٹھنڈک ضرور تھی مگر دلوں میں نفرت اور دکھ کی آگ دہک رہی تھی۔ دشمن کی بیٹی کو ونی کے نام پر سردار کی حویلی لایا گیا تھا۔ یہ وہ حویلی تھی جس کے بڑے بڑے دروازے، لمبے صحن اور اونچی فصیلیں طاقت اور رعب کی پہچان سمجھی جاتی تھیں۔
زری سفید دوپٹے میں لپٹی، جھکی ہوئی نظریں اور لرزتے قدموں کے ساتھ حویلی کے اندر داخل ہوئی۔ عورتیں سرگوشیوں میں کہہ رہی تھیں:
“یہی ہے وہ دشمن کی بیٹی…”
“بیچاری، ابھی عمر ہی کیا ہے…”
“مگر میسم شاہ کا مزاج… ہائے اللہ!”
زری نے سر جھکایا اور دل ہی دل میں سوچا:
“یا اللہ! یہ کہاں لے آئے مجھے؟ یہ گھر تو کسی محل سے زیادہ قید خانہ لگ رہا ہے۔”
زری کو اوپر والے حصے میں ایک بڑا مگر سنسان کمرہ دیا گیا۔
