Download free web-based Urdu books, free internet perusing, complete in PDF, Panah E Ishq Novel Free – ZNZ – Online Free Download in PDF, Panah E Ishq Novel Free – ZNZ – Online Free Download in PDF, And All Free internet based Urdu books, books in Urdu, heartfelt Urdu books, You Can Download it on your Portable, PC and Android Cell Phone. In which you can without much of a stretch Read this Book. Panah E Ishq Novel Free – ZNZ We are Giving the PDF document on the grounds that the vast majority of the clients like to peruse the books in PDF, We make an honest effort to make countless Urdu Society, Our site distributes Urdu books of numerous Urdu journalists.
Panah E Ishq Novel Free – ZNZ
“خبردار جو تم نے میرے بیٹے کو ہاتھ ہاتھ لگایا اس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے” اس نے اپنے بچے کو سینے سے بھینچا۔ “تو پھر یہ کس کا بچہ ہے ؟آخر کون ہے اسکا باپ ؟” “یہ میرا بچہ ہے اور اسکا باپ کون ہے یہ تمہارا مسئلہ نہیں یے” مافیا باس کی آنکھیں میں آنکھیں ڈال وہ اپنا خوف چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ “یعنی یہ میرا بچہ ہے اور میں اپنے بچے کو لے کر جا رہا ہوں” اسکی گود سے بچہ چھینے وہ آگے بڑھا جب وہ اسکے سامنے آئی۔ “تم ایسا نہیں کرسکتے” “میں کیا کیا کر سکتا ہوں تمہیں ابھی اندازہ نہیں ہے ڈارلنگ” اسکی کمر پر اپنی گرفت مضبوط کرتا وہ مسکرایا تھا۔ “میرا بچہ مجھے واپس کر دو۔۔۔” خود کو اس کی سخت و مضبوط گرفت سے چھڑاتے ہوئے اس نے ریان کو پکڑنا چاہا تھا جب کہ وہ اسے اپنے اور بھی زیادہ قریب کر چکا تھا۔ “تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔” آنکھیں دکھا کر سخت لہجے میں اس سے بولتی وہ کہیں سے بھی یسرا نہیں لگی تھی۔ وہ تو ایک ماں تھی۔ جو اپنے بچے کے لیے تڑپ رہی تھی۔ “جھوٹی۔۔۔ تمہارے یہ جھوٹے دعوے میرے صرف ایک ڈی این اے ٹیسٹ کی مار ہے۔۔۔تمہیں لگتا ہے کہ میں تمہاری خالی دھمکیوں میں آنے والا ہوں” اس کے مضبوط لہجے میں کہنے پر یسرا کے ہوش بے اختیار اڑے تھے اس کے چہرے پر ڈر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ “مجھے میرا بچہ واپس کر دو۔۔۔ میرے پاس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں” نم آنکھوں سے کہتی ہوئی وہ اسے کہیں سے بھی تھوڑی دیر پہلے دھاڑنے والی شیر نہیں ہرگز نہیں لگی تھی۔ “تو تم مان رہی ہو کہ یہ میرا بیٹا ہے۔۔” یسرا کی آنکھیں دیکھ کر اس کے دل میں کچھ برے طریقے سے چبھا تھا۔ مگر ابھی یہ ضروری تھا۔ تبھی خود کو سرد اور سخت بناتے ہوئے اس نے یسرا سے استفسار کیا تھا۔ جبکہ یسرا بے بسی سے فقط اثبات میں سر ہلا گئی تھی۔ اس کا ہاں میں سر ہلانا تھا کہ ڈی کے رگ و پے میں شرساری دوڑ گئی تھی۔ یہ احساس ہی کہ یہ بچہ اس کا اپنا خون ہے اسے مسرور کر چکا تھا۔ اور مزید سامنے کھڑی لڑکی اس کی ہے ۔ مزید اسے اپنی باہوں میں جکڑتے ہوئے وہ دوسرے بازو میں اپنے بیٹے کو لیے ہوئے تھا۔ اسے ساری کائنات اپنے حصار میں قید نظر آرہی تھی جبکہ وہ اس کی محبت کو قید سمجھتی ہوئی چھٹپٹا رہی تھی۔ “اگر تمہیں ہمارا بیٹا چاہیے۔۔۔ تو تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔۔۔ نہیں تو تم میرے بیٹے کو چھوڑ کر جا سکتی ہو۔۔۔” سرد اور کھردرے لہجے میں کہتا ہوا وہ اس کے سینے سے دل نکال چکا تھا۔ آہستہ آہستہ روح قبض ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے پاس صرف اس کا بیٹا ہی تو تھا۔ اگر یہ چھن جاتا تو وہ کیا کرتی شدت سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے وہ اس کے ساتھ بھی جانے کو تیار تھی۔ بس اس کا بیٹا اسے دے دیا جائے جبکہ مسکراہٹ ڈی کے کے لبوں کو چھو گئی تھی۔ ایک عرصے بعد وہ مسکرایا تھا فقط اس لڑکی کی وجہ سے ۔۔۔ اس کے گرد اپنے حصار کا حالہ قائم کرتے ہوئے وہ اسے اور اپنے بیٹے کو اپنے بازو میں سمائے لیے چلا گیا تھا۔ “تم بہت ہی نازک ہو۔۔۔ ہمارے بیٹے کو میں ہی اٹھایا کروں گا” اس کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے یسرا نے بے اختیار ریان کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے تھے مگر ڈی کے اس کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنے بازوں میں ہی اٹھائے رکھا تھا اور جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ جبکہ وہ اس کے حصار میں چلتی ہوئی فقط اپنے بیٹے کو ہی دیکھے جا رہی تھی۔